سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی، عمران خان، جو اس وقت قید میں ہیں، نے چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل عاصم منیر کو ایک چھ نکاتی خط ارسال کیا۔
اس خط میں، خان نے مبینہ انتخابی دھاندلی اور دیگر اہم قومی مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور فوج اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کو کم کرنے کے لیے موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی پر زور دیا۔
عمران خان کے خط کے اہم نکات:
مبینہ انتخابی دھاندلی:
خان نے 8 فروری کے انتخابات سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے ساتھ ملی بھگت سے دھاندلی زدہ تھے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کی کارروائیوں نے عوام کا جمہوری عمل پر اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔
26ویں آئینی ترمیم:
انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرنا ہے۔ خان کو خدشہ ہے کہ یہ ترمیم انتخابی دھاندلی کو قانونی جواز فراہم کرنے اور کرپٹ عناصر کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA):
خان نے پی ای سی اے میں ترامیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک "سیاہ قانون” قرار دیا جو اختلاف رائے کو دبانے اور سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف کارروائیاں:
خط میں ان واقعات کو اجاگر کیا گیا جہاں پی ٹی آئی کارکنوں پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے، ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، اور انہیں طاقت کے ذریعے دبایا گیا۔ خان نے دلیل دی کہ ایسی کارروائیاں نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں بلکہ فوج کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔
معاشی خدشات:
خان نے ملک میں جاری معاشی عدم استحکام کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے سیاسی بے یقینی اور ان پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جو روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایسی پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیا جو سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کو فروغ دیں۔
خفیہ ایجنسیوں کا کردار:
اگرچہ خط میں تفصیلات شامل نہیں تھیں، لیکن خان نے انٹیلیجنس ایجنسیوں کی سرگرمیوں سے متعلق خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انہیں آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔
پالیسیوں پر نظرثانی کی اپیل:
خان نے جنرل منیر سے موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فوج اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ قومی یکجہتی اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ان مسائل کے جامع حل کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کی تجویز بھی دی۔
سیکیورٹی ذرائع کا ردعمل:
پی ٹی آئی کے دعووں کے برعکس، سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ آرمی چیف کو عمران خان کی طرف سے کوئی خط موصول نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی قیادت کو اس خط کے بارے میں معلومات میڈیا کے ذریعے ملیں نہ کہ باضابطہ ذرائع سے۔
پس منظر اور اثرات:
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پی ٹی آئی اور موجودہ حکومت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ خان کا خط حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور سیاست میں فوج کے کردار سے متعلق ان کے مسلسل خدشات کو اجاگر کرتا ہے۔ آرمی چیف کو خط کے باضابطہ طور پر موصول نہ ہونے کے دعوے نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جو ممکنہ طور پر مواصلاتی خلا یا حکمت عملی کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھے گی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان خدشات کو کس طرح حل کیا جائے گا اور یہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثر ڈالیں گے۔