محمد علی، جن کا اصل نام کیسیس مارسیلس کلیے جونیئر تھا، 17 جنوری 1942 کو لوئس ول، کینٹکی میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ورکنگ کلاس افریقی-امریکی خاندان میں پیدا ہوئے جب امریکہ میں نسلی امتیاز اپنے عروج پر تھا۔
ان کے والد، کیسیس مارسیلس کلیے سینئر، بل بورڈ پینٹر تھے، اور ان کی والدہ، اوڈیسا گریڈی کلیے، گھریلو کام کاج کرتی تھیں۔ ابتدائی عمر سے ہی محمد علی نے کرشماتی شخصیت، عزم، اور انصاف کا زبردست احساس ظاہر کیا۔
علی کا باکسنگ میں داخلہ ایک اتفاقیہ واقعہ تھا۔ 12 سال کی عمر میں ان کی سائیکل چوری ہوگئی، اور جب انہوں نے مقامی پولیس آفیسر، جو مارٹن، کو اس کی رپورٹ دی تو انہوں نے چور کو "سبق سکھانے” کی قسم کھائی۔ مارٹن، جو باکسنگ جم بھی چلاتے تھے، نے انہیں لڑائی سیکھنے کی ترغیب دی۔ یہ موقع محمد علی کے شاندار سفر کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔
محمد علی نے جلد ہی باکسنگ میں مہارت حاصل کی، چھ کینٹکی گولڈن گلووز ٹائٹل، دو نیشنل گولڈن گلووز ٹائٹل، اور ایک اے اے یو چیمپئن شپ جیتی۔
1960 میں، صرف 18 سال کی عمر میں، انہوں نے روم اولمپکس میں لائٹ ہیوی ویٹ ڈویژن میں گولڈ میڈل جیتا۔ تاہم، امریکہ واپس آنے کے بعد، انہیں نسلی تعصب کا سامنا کرنا پڑا، جو نظامی ناانصافی کے خلاف ان کے عزم کو مزید تقویت دیتا رہا۔
پیشہ ورانہ طور پر 1960 میں آغاز کرنے کے بعد، علی نے کھیلوں کی تاریخ کے سب سے مشہور کیریئرز میں سے ایک کا آغاز کیا۔ وہ نہ صرف اپنی جسمانی مہارت بلکہ اپنی منفرد شخصیت کی وجہ سے بھی مشہور ہوئے—ان کی بے باک خود اعتمادی، ذہین طنزیہ گفتگو، اور شاعرانہ اعلانات نے انہیں پاپ کلچر اور کھیلوں کے میدان میں نمایاں مقام دیا۔
مقابلے اور اہم لمحات
1. ابتدائی کیریئر اور شہرت کی بلندی
محمد علی نے 29 اکتوبر 1960 کو اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کیا، جہاں انہوں نے چھ راؤنڈ میں متفقہ فیصلے کے ذریعے ٹونی ہنسیکر کو شکست دی۔
اگلے چار سالوں میں، علی ناقابل شکست رہے اور آرچی مور اور ہنری کوپر جیسے نمایاں باکسرز کو شکست دی۔ ان کی تیز رفتاری، پاؤں کی حرکت، اور غیر روایتی انداز نے انہیں دیگر بھاری وزن کے کھلاڑیوں سے الگ کیا۔
2. سونی لسٹن کے ساتھ مقابلے (1964 اور 1965)
علی کا اہم لمحہ 25 فروری 1964 کو آیا جب انہوں نے سونی لسٹن کا سامنا کیا۔ علی نے دنیا کو حیران کر دیا اور ساتویں راؤنڈ میں لسٹن کو شکست دے کر ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتا۔
اس مقابلے کے بعد، علی نے اعلان کیا، "میں سب سے عظیم ہوں!” انہوں نے اسلام قبول کرنے اور اپنا نام کیسیس کلیے سے محمد علی رکھنے کا اعلان کیا۔
لسٹن کے ساتھ دوسرا مقابلہ 25 مئی 1965 کو ہوا، جس میں علی نے پہلے ہی راؤنڈ میں "فینٹم پنچ” کے ذریعے جیت حاصل کی، جس پر بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ مکمل طور پر لگنے والا مکا نہیں تھا۔
3. فوجی سروس سے انکار اور باکسنگ سے دوری
1967 میں، محمد علی نے ویتنام جنگ کے دوران امریکی فوج میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، اور کہا، "مجھے ویت کانگ سے کوئی جھگڑا نہیں۔” اس فیصلے کی وجہ سے ان کا باکسنگ لائسنس معطل کر دیا گیا، ان کا ٹائٹل چھین لیا گیا، اور انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی (حالانکہ وہ اپیل پر رہا رہے)۔ چار سال تک، علی لڑائی سے دور رہے، جو ان کی زندگی کے سب سے مشکل ادوار میں سے ایک تھا۔
4. صد سالہ مقابلہ (1971)
1970 میں، علی واپس آئے اور 8 مارچ 1971 کو جو فریزر کے ساتھ "صد سالہ مقابلے” میں حصہ لیا۔ دونوں باکسر ناقابل شکست تھے، اور یہ مقابلہ اپنی شہرت پر پورا اترا۔ فریزر نے علی کو 15ویں راؤنڈ میں گرایا اور متفقہ فیصلے سے جیت حاصل کی۔
5. رمبل ان دی جنگل (1974)
30 اکتوبر 1974 کو، علی نے زائر کے شہر کنشاسا میں جارج فورمین کا سامنا کیا۔ فورمین کو بھاری پسندیدہ قرار دیا گیا تھا، لیکن علی نے اپنی مشہور "روپ-اے-ڈوپ” حکمت عملی اپنائی، جس میں وہ رسیوں کے خلاف جھک کر فورمین کو تھکا دیتے تھے۔ آٹھویں راؤنڈ میں علی نے فورمین کو ناک آؤٹ کیا اور دوبارہ ہیوی ویٹ ٹائٹل جیت لیا۔
6. تھریلا ان مینلا (1975)
1 اکتوبر 1975 کو فلپائن میں جو فریزر کے ساتھ علی کا تیسرا مقابلہ باکسنگ کی تاریخ کے سب سے عظیم مقابلوں میں شمار ہوتا ہے۔ 14 راؤنڈ کے سخت مقابلے کے بعد، علی فاتح قرار پائے جب فریزر کے ٹرینر نے آخری راؤنڈ سے پہلے مقابلہ روک دیا۔ علی نے بعد میں کہا کہ یہ وہ وقت تھا جب وہ رنگ میں موت کے قریب پہنچے۔
7. بعد کے سال اور ریٹائرمنٹ
علی نے لیون اسپنکس کے خلاف کئی مقابلے لڑے، جنہیں انہوں نے 1978 میں شکست دے کر تین بار ہیوی ویٹ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1981 میں، لیری ہومز اور ٹریور برکک کے خلاف شکست کے بعد علی نے ریٹائرمنٹ لے لی۔
ریکارڈز
- کل مقابلے: 61
- جیت: 56
- ناک آؤٹ کے ذریعے: 37
- فیصلے کے ذریعے: 19
- شکست: 5
حقائق
- لقب: علی کو "دی گریٹسٹ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔
- باکسنگ اسٹائل: ان کا انداز ان کی مشہور لائن "تتلی کی طرح اڑنا، شہد کی مکھی کی طرح ڈنگ مارنا” کے مطابق تھا، جو رفتار، چستی، اور نفسیاتی حکمت عملی پر مبنی تھا۔
- سیاسی سرگرمی: علی نسلی ناانصافی، ویتنام جنگ، اور عدم مساوات کے خلاف ایک بلند آواز تھے اور مزاحمت اور ہمت کی علامت بنے۔
- ایوارڈز اور اعزازات: علی کو "اسپورٹس مین آف دی سنچری” کا اعزاز اسپورٹس السٹریٹڈ اور بی بی سی نے دیا۔ انہیں 2005 میں صدارتی تمغہ آزادی سے نوازا گیا۔
- صحت کے چیلنجز: علی کو 1984 میں پارکنسن کی بیماری تشخیص ہوئی، جو ان کے باکسنگ کیریئر کے اثرات سے منسلک سمجھی جاتی ہے۔
- فلاحی کام: علی نے اپنی زندگی کے آخری سال بھوک مٹانے، تعلیم کو فروغ دینے، اور امن کے قیام جیسے فلاحی کاموں کے لیے وقف کیے۔
میراث
محمد علی باکسنگ سے آگے بڑھ کر 20ویں صدی کی سب سے بااثر شخصیات میں شامل ہوئے۔ ان کی ہمت، خود اعتمادی، اور نظریات کے دفاع نے دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
علی نے اپنے کردار اور اعتماد کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ عظمت صرف جسمانی مہارت کا نام نہیں، بلکہ مضبوط اخلاقی اقدار کا مظہر ہے۔
ان کا مشہور قول ان کی میراث کی گواہی دیتا ہے:
"ناممکن کچھ نہیں۔ یہ صرف ایک بڑا لفظ ہے جو چھوٹے لوگ استعمال کرتے ہیں۔”